بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پڑوسیوں کے حقوق اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان ان کے ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو، خواہ مسلمان یا یہودو نصرانی ہوں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جارذی القربی سے مراد بیوی ہے اور جار الجنت سے مراد مرد رفیق سفر ہے، پڑوسیوں کے حق میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں کچھ سن لیجئے۔ مسند احمد میں بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حضرت جبرائیل پڑوسیوں کے بارے میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ خوش سلوک زیادہ ہو اور پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ہمسایوں سے نیک سلوک میں زیادہ ہو، فرماتے ہیں انسان جو نہ چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہو جائے۔ ایک مرتبہ آپ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا وہ حرام ہے اللہ نے اور اس کے رسول سے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا، آپ نے فرمایا سنو دس عورتوں سے زناکاری کرنے والا اس شخص کے گناہ سے کم گنہگار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے پھر دریافت فرمایا تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے آپ نے فرمایا سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے گناہ کا اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرائے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی ایک نے تجھے پیدا کیا ہے میں نے پوچھا پھر کونسا ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے۔ ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہیں میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں آپ سے کچھ کام ہو گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں بڑی دیر ہو گئی یہاں تک کہ مجھے آپ کے تھک جانے کے خیال نے بےچین کر دیا بہت دیر کے بعد آپ لوٹے اور میرے پاس آئے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم نے انہیں دیکھا میں نے کہا ہاں خوب اچھی طرح دیکھا فرمایا جانتے ہو وہ کون تھے؟ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے ( مسند احمد) مسند عبد بن حمید میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص عوالی مدینہ سے آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے جب آپ فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا تم نے انہیں دیکھا ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا تو نے بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرائیل تھے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے آٹھویں حدیث بزار میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں ایک حق والے یعنی ادنی، دو حق والے اور تین حق والے یعنی اعلیٰ، ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتہ داری نہ ہو، دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس ، تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے ناتے کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے ہوگئے۔ حدیث مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے بھیجواؤں؟ آپ نے فرمایا جس کا دروازہ قریب ہو۔ دسویں حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا لوگوں نے آپ کے وضو کے پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں آپ نے فرمایا جسے یہ خوش لگے کہ اللہ اور اس اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہئے کہ جب بات کرے سچ کرے اور جب امانت دیا جائے تو ادا کرے۔ (تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں پر ختم ہے لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہوا رہ گیا ہے جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے ہے وہ یہ کہ اسے چاہیے پڑوسی کے ساتھ سلوک و احسان کرے۔ مترجم) گیارھویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جو جھگڑا اللہ کے سامنے پیش ہو گا وہ دو پڑوسیوں کا ہو گا۔ پھر حکم ہوتا ہے صاحب بالجنت کے ساتھ سلوک کرنے کا۔ اس سے مراد بہت سے مفسرین کے نزدیک عورت ہے اور بہت سے فرماتے ہیں مراد سفر کا ساتھی ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد دوست اور ساتھی ہے عام اس سے کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں ابن سبیل سے مراد مہمان ہے اور یہ بھی جو سفر میں کہیں ٹھہر گیا ہو اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے کہ سفر میں جاتے جاتے مہمان بنا تو دونوں ایک ہوگئے، ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
|
No comments:
Post a Comment